![]() |
این اے 148 ساہیوال: اگلا الیکشن کونسی سیاسی جماعت جیتے گی؟ |




پارلیمنٹ اپنی مدت مکمل کرنے کو ہے اور عبوری حکومت کے قیام کے لیے مشاورت جاری ہے۔ ملک بھر میں جنرل الیکشن 2018 کے لیے سیاسی پارٹیوں کی صف بندی بھی واضع طور سامنے آرہی ہے۔نئے ترمیمی آرڈیننس کے بعد ہونیوالی حلقہ بندیوں میں پنجاب بھر سے قومی اسمبلی کی 9 نشستیں کم ہوئی ہیں۔ جس کی بناء پر حلقہ جات کے نمبر بھی تبدیل ہو چکے ہیں۔نئی حلقہ بندیوں کے بعد ساہیوال میں قومی اسمبلی کی ایک نشست کم ہو چکی ہے۔قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 148 سابقہ این اے 161 تھا۔نئی حلقہ بندی کے بعد اس حلقے کی آبادی آٹھ لاکھ 28 ہزار 815 افراد پر مشتمل ہے۔وہ تمام علاقے جو این اے 161 میں شامل تھے بدستور اور دیگر نئے علاقے اس حلقے میں شامل کئے گئے ہیں۔یہ حلقہ بنیادی طور پر ساہیوال اور چیچہ وطنی کے درمیانی علاقوں پر مشتمل ہے۔ تحصیل چیچہ وطنی کے علاقے داد فتیانہ، 12 گیارہ ایل، 18 گیارہ ایل، 161 نو ایل، 162 نو ایل، 173 نو ایل، 175 نو ایل جبکہ ساہیوال تحصیل سے نور شاہ، قادر آباد، یوسف والا کے دیہات اور 90 چھ آر، 94 نو ایل، 96 نو ایل، 97 چھ آر، 97 نو ایل، 102 نو ایل کے ساتھ ساتھ میونسپل کمیٹی ساہیوال کے کچھ علاقے بھی اس حلقے میں شامل ہیں۔حلقے میں برادریاں خاصی اہمیت رکھتی ہیں یہاں آرائیں، راجپوت اور بلوچ بڑی برادریاں ہیں جبکہ شیرازی، کرمانی، کاٹھیہ، گجر اور جٹ بھی موجود ہیں۔آرائیں برادری کی اکثریت چوہدری محمد اشرف کو ووٹ دیتی ہے۔ساہیوال شہر میں عملاََ دو پارٹی سسٹم ہی رائج رہا ہے۔ یہاں پی ایم ایل این اور پی پی پی ہی برسرپیکار رہی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ شہر میں برادری سسٹم اتنا مضبوط نہیں جتنا دیہی علاقوں میں ہیں۔ حلقہ این اے 161 میں 2008ء تک ہونے والے تمام انتخابات میں اگر 1985ء کا غیر جماعتی الیکشن نظر انداز کر دیا جائے تو آٹھ انتخابات میں سے پانچ پیپلز پارٹی نے اور دو مسلم لیگ نے اور ایک آزاد امیدوار رانا طارق جاوید نے جیتا تھا۔حلقہ این اے 161 میں 2008ء تک ہونے والے تمام انتخابات میں اگر 1985ء کا غیر جماعتی الیکشن نظر انداز کر دیا جائے تو آٹھ انتخابات میں سے پانچ پیپلز پارٹی نے اور دو مسلم لیگ نے اور ایک آزاد امیدوار رانا طارق جاوید نے جیتا تھا۔1970ء اور 1977ء کے الیکشن پیپلز پارٹی نے جیتے تھے جبکہ 1988ء اور اس کے بعد تمام انتخابات میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ہی مد مقابل رہی ہیں۔مہر غلام فرید کاٹھیہ پیپلز پارٹی سے اور چودھری محمد اشرف مسلم لیگ کے پیلٹ فارم سے کامیاب ہوتے چلے آ رہے ہیں۔2002ء کے انتخابات میں پاکستان شیعہ پولیٹیکل پارٹی کے پلیٹ فارم سے رانا طارق جاوید نے 42 ہزار 856 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی۔حاجی احسان الحق ادریس نے پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے آٹھ ہزار 882، چوہدری محمد اشرف نے مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر 38 ہزار 207 اور پاکستان پیپلز کے امیدوار مہر غلام غلام فرید کاٹھیہ نے 33 ہزار 16 ووٹ حاصل کیے تھے۔ان چاروں امیدواروں میں صرف پاکستان پیپلز پارٹی کے مہر غلام فرید کاٹھیہ ہی اپنی پارٹی کے ساتھ استقامت سے کھڑے نظر آتے ہیں دیگر تینوں سیاستدان، پارٹیاں تبدیل کرتے رہے۔2008ء کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے مہر غلام فرید کاٹھیہ نے اس حلقے سے 38 ہزار 962 ووٹ لیکر چوہدری محمد اشرف اور حاجی احسان الحق ادریس کو شکست دی تھی۔ جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ پاکستان مسلم لیگ ن نے پارٹی ٹکٹ حاجی احسان الحق ادریس کو دیا۔ جنہوں نے 22 ہزار 625 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ چوہدری محمد اشرف نے ن لیگ کی جانب سے ٹکٹ نہ ملنے پر پاکستان ڈیمو کریٹک پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا۔جس کی بناء پر مسلم لیگ ن کے ووٹ تقسیم ہوئے اور فتح پاکستان پیپلز پارٹی کے مہر غلام فرید کاٹھیہ کو ملی۔چوہدری محمد اشرف اس الیکشن میں 33 ہزار 110 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر تھے۔رانا طارق جاوید پاکستان مسلم لیگ ق کے امیدوار تھے۔ انہوں نے 28 ہزار 879 ووٹ لیکر تیسرے نمبر پر جبکہ مسلم لیگ ن کے حاجی احسان الحق ادریس 22 ہزار 625 ووٹ لیکر چوتھے نمبر پر رہے۔2013ء کے انتخابات میں چوہدری محمد اشرف نے پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے الیکشن لڑا اور 94 ہزار 12 ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی تھی۔ جبکہ دوسرے نمبر پر پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار محمد یار ڈھکو نے 43 ہزار 646 ووٹ حاصل کیے تھے۔ آزاد امیدوار رانا طارق جاوید 16 ہزار 110 ووٹ لیکر تیسرے نمبر پر، پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار مہر غلام فرید کاٹھیہ 10 ہزار 894 ووٹ لیکر چوتھے نمبر پر تھے۔کالم نگار حافظ اقبال سحر جن کا آبائی علاقہ ہڑپہ ہے۔ سیاسی منظر نامے پر کچھ اس طرح روشنی ڈالتے ہیں کہ رانا طارق جاوید اور حاجی احسان الحق ادریس اس حلقے سے اگر دوبارہ الیکشن لڑتے ہیں تو وہ مضبوط امیدوار نہیں ہونگے۔ چوہدری محمد اشرف آج بھی ن لیگ کے مضبوط امیدوار ہیں جنہوں نے 2002ء اور 2008ء کے انتخابات میں اگر فتح حاصل نہیں بھی تو کم ازکم ووٹ 30 ہزار سے زائد لیے جو انکی برادری کے ووٹ ہیں۔ابھی سیاسی پارٹیوں نے اپنے امیدواروں کو ٹکٹ جاری نہیں کیے مگر حافظ اقبال سحر کے مطابق ابھی بھی اس حلقے میں سیاست انہیں افراد کے گرد گھومے گی۔ لہذا مسلم لیگ ن کے چوہدری محمد اشرف اور پاکستان تحریک انصاف کے محمد یار ڈھکو کے درمیان سخت مقابلے کی توقع رکھتے ہیں۔ کیونکہ کوئی بھی سیاسی پارٹی اگر اس حلقے میں الیکشن جیتنےکے لیے لڑ رہی ہے تو وہ کسی نئے امیدوار کا تجربہ کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر الیکشن موجودہ حالات کے مطابق مقررہ وقت پر ہو جاتے ہیں تو این اے 148 میں پاکستان تحریک انصاف، مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔ جبکہ فاتح مسلم لیگ ن یا پاکستان تحریک انصاف سے ہوگا۔
0 comments:
Post a Comment