![]() | |
| 'گھر والوں کا ساتھ ہو تو کچھ کرنا ناممکن نہیں' |
![]() |
| an other look |
اگر آپ ساہیوال کے علاقے فرید ٹاؤن میں رہتے ہیں۔ تو آپ نے ایک لڑکی کو لال رنگ کی سکوٹی چلاتے ضرور دیکھا ہوگا۔جی ہاں! یہ ہیں ایمان زینب!ایمان نجی سکول میں نویں جماعت کی طالبہ ہیں۔ وہ سکوٹی پر ہی سکول آتی جاتی ہیں۔ ایمان خود اعتمادی کے ساتھ سڑک پر بے خوف ہو کر سکوٹی چلاتی ہیں۔"میرا ماننا ہے کہ اگر گھر والے آپ کے ساتھ ہیں۔ تو گبھرائے مت، ہمت کریں تو آپ سب کچھ کر سکتے ہیں 'وہ بتاتی ہیں کہ انہیں سکوٹی چلاتے ہوئے ڈیرھ سال ہو گیا ہے۔ وہ آٹھویں کلاس سے سکوٹی چلا رہی ہیں۔ پہلے تو مجھے مشکل لگا کہ میں اکیلی کیسے سکوٹی چلاؤ گی کیونکہ میرے اردگرد کوئی لڑکی بھی سکوٹی نہیں چلاتی۔ مجھے عجیب سا لگا لیکن پھر بابا نے ہمت بڑھائی تو میں نے سکوٹی لینے کا فیصلہ کر لیا۔ "ایمان زینب"ایمان کے والد شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ اس لیے ان کے کام کے اوقات کار متعین نہیں ہیں۔"ہم دو بہنیں ہیں۔ اکثر بابا کو کام کی وجہ سے ہمیں چھٹی کے وقت سکول سے لینا مشکل ہوتا تھا۔ انتظار کر کر کے آخر پھر رکشہ لے کر گھر آنا پڑتا۔ ہمیں تو مشکل ہوتی ہی تھی پر والدہ الگ پریشان ہوتیں کہ ابھی تک گھر نہیں پہنچی۔'ایک دن میں بابا کے ساتھ بیٹھی تھی وہ لیپ ٹاپ پر کام کر رہے تھے تو بابا نے کہا کہ تمہں اگر سکوٹی لے دی جائے تو تم خود چلا لو گی۔پہلے تو مجھے مشکل لگا کہ میں اکیلی کیسے سکوٹی چلاؤ گی کیونکہ میرے ارد گرد کوئی لڑکی بھی سکوٹی نہیں چلاتی۔ مجھے عجیب سا لگا لیکن پھر بابا نے ہمت بڑھائی تو میں نے سکوٹی لینے کا فیصلہ کر لیا'ساہیوال میں سکوٹی نہیں ملی تو میں بابا کے ساتھ پہلے لاہور گئی پھر ملتان کا سفر کیا۔ آخر ایک ماہ کی انتھک کوشش کے بعد سکوٹی آ ہی گئی۔بابا نے مجھے سکوٹی چلانا سکھائی۔ میں چاہتا ہوں وہ بلا کسی روک ٹوک کے آگے بڑھیں اور اپنے فیصلے خود کریں۔ "والد فیاض ربانی"شروع میں میرے ذہن میں بہت سے خدشات تھے۔ کہ لوگ کیا کہں گے۔ سڑک پر جاتے ہوئے آوازیں کسیں گے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن پھر یہ سوچ کر حوصلہ ہوا کہ گھر والوں کی سپورٹ میرے ساتھ ہے میں اکیلی نہیں ہوں۔میں سوچتی ہوں اگر بابا میرا حوصلہ نہ بڑھاتےتو میں کبھی بھی سکوٹی نہیں چلا سکتی تھی۔جب میں پہلے دن سکوٹی پر سکول گئی تو میری دوستیں دیکھ کر حیران رہ گئیں۔ ان کے اصرار پر میں نے انہیں سکوٹی پر سیر بھی کروائی۔ سکول کے اساتذہ کی طرف سے بھی میری حوصلہ افزائی کی گئی۔ایمان نے بتایا کہ مجھے ایک بار سکوٹی چلاتے ہوئے لڑکوں نے تنگ کیا، مگر میں نے ڈرنے کی بجائے رک کر خوب ان کی طبیعت صاف کی۔ اس کے بعدایسا واقع دوبارہ نہیں ہوا۔'کچھ لوگ مجھے سکوٹی چلاتے دیکھ کر ہنستے ہیں، مذاق اڑاتے ہیں لیکن اب میں کسی کی پروا نہیں کرتی ہوں'ایمان کے والد فیاض ربانی کہتے ہیں کہ میں نے اپنی بیٹوں میں خود اعتمادی پیدا کی ہے۔'میں چاہتا ہوں وہ بلا کسی روک ٹوک کے آگے بڑھیں اور اپنے فیصلے خود کریں۔'
ایمان کا کہنا ہے کہ لڑکیاں سب کچھ کر سکتی ہیں، بس گھر والوں کو ان کی ہمت بڑھانے کی ضرورت ہے۔
ایمان کے سکوٹی چلانے سے میری 90 فیصد پریشانی کم ہو گئی ہے۔ اب میں گھر نہ بھی ہوں تو وہ گھر کا سامان خود مارکیٹ جا کر لے آتی ہیں۔ "فیاض ربانی"ایمان بتاتی ہے کہ وہ سکوٹی چلاتے ہوئے ہیلمنٹ پہنتی ہیں۔ اور ٹریفک قوانین کا خیال رکھتی ہیں۔'اگر کوئی میرے سے ریس لگائے تو میں انہیں کہتی ہوں کہ بھائی مجھے آپ سے ریس نہیں لگانی'ایمان ڈاکٹر ببنا چاہتی ہیں۔ وہ کالج اور یونیورسٹی میں بھی سکوٹی پر جانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ایمان کی چھوٹی بہن بھی اسے دیکھتے ہوئے سکوٹی چلانا سیکھ رہی ہے۔ایمان کہتی ہیں کہ لڑکیاں سب کچھ کر سکتی ہیں۔ بس گھر والوں کو ان کی ہمت بڑھانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ بہت سی لڑکیاں سفری اخراجات برداشت نہیں کر سکتیں جس کی وجہ سے انہیں اپنی تعلیم پوری کرنے میں مسائل کا سامنا رہتا ہے اور دوسرا انہیں آنے جانے کے لیے ہمیشہ دوسروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ایمان نے کہا کہ حکومت اور تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ وہ لڑکیوں کے لیے ایسا ماحول پیدا کریں جس میں وہ خود اعتمادی سے سکوٹی یا موٹر سائیکل چلا سکیں۔


0 comments:
Post a Comment